مندرجات کا رخ کریں

ابو مصعب الزرقاوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو مصعب الزرقاوی
(عربی میں: أبو مصعب الزرقاوي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: أحمد فضيل نزال الخلايلة ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 30 اکتوبر 1966ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زرقاء   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 جون 2006ء (40 سال)[1][2][3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات انفجاری آلہ   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت اردن   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت القاعدہ   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن القاعدہ، عراق ،  مجاہدین شوریٰ کونسل   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
امیر القاعدہ عراق (1  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
17 اکتوبر 2004  – 7 جون 2006 
 
ابو حمزہ المہاجر  
عملی زندگی
استاذ ابو انس الشامی [5]  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری جماعت التوحید والجہاد ،  القاعدہ   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ کمانڈر   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کمانڈر جماعت التوحید والجہاد
القاعدہ، عراق   ویکی ڈیٹا پر (P598) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں عراقی جنگ   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پرائیویٹ جہاد
عمومی معلومات
بانیمحمد بن عبدالوہاب
آغاز18ویں صدی، نجد، (موجودہ سعودی عرب)
نوعیتغیر ریاستی مسلح جدوجہد
متاثرہ نظریات
وہابی جہادی آئیڈیالوجی، قطبیت، عزامیت، زرقاویت، داعشیت، بوکو حرامیت، الشبابیت، طالبانیت، دیوبندی-وہابی جہادی آئیڈیالوجی
متاثرہ تنظیمیں
القاعدہ · داعش · بوکو حرام · الشباب · جیش محمد · لشکر طیبہ · حرکت المجاہدین · انصار الشریعہ · جماعت المجاہدین بنگلہ دیش · انصار الاسلام · ابو سیاف · حقانی نیٹ ورک · تحریک طالبان پاکستان · حرکة الشباب المجاہدین · جمہوریہ وسطی افریقہ میں سیلیکا · انصار دین · انصار الاسلام (مصر) · الحزب الاسلامی (صومالیہ) · حماس · الجماعة الاسلامیہ (انڈونیشیا) · فتح الاسلام · اسلامی تحریک ازبکستان · سپاہ صحابہ پاکستان · لشکر جھنگوی · خراسان گروپ · انصار المجاہدین · حرکة المجاہدین العالمیہ · جماعت انصار اللہ · تحریک طالبان افغانستان · جیش العدل · لشکر اسلام · لشکر جھنگوی العالمی
اثرات
 افغانستان ·  پاکستان ·  صومالیہ ·  نائجیریا ·  عراق ·  سوریہ ·  یمن ·  فلسطین ·  فلپائن ·  مالی ·  نائجر ·  لیبیا ·  مصر ·  الجزائر ·  انڈونیشیا ·  تاجکستان ·  ازبکستان ·  بنگلادیش · کشمیر ·  روس ·  چین ·  یورپ ·  ریاستہائے متحدہ ·  سعودی عرب ·  ترکیہ ·  سوڈان ·  لبنان ·  تھائی لینڈ ·  کینیا ·  یوگنڈا · چچنیا ·  ترکمانستان ·  میانمار ·  بھارت ·  مالدیپ · بوسنیا ·  قطر ·  بحرین
مقاصد
خلافت یا اسلامی ریاست کا قیام، غیر ریاستی مسلح جدوجہد، عالمی خلافت کا نفاذ، فرقہ وارانہ تصادم
تنقید
اسلامی فقہ کی روایات سے انحراف، ریاستی اختیارات کی خلاف ورزی، غیر ریاستی تشدد اور دہشت گردی، غیر منظم تشدد

ابو مصعب الزرقاوی (عربی: أحمد فضيل النزال الخلايله) کا اصل نام احمد فضیل تھا۔[6] وہ 30 اکتوبر 1966ء کو اردن کے شہر زرقا میں پیدا ہوئے، جو فلسطینی مہاجرین کی بڑی آبادی پر مشتمل تھا۔[7] ان کا تعلق دریائے اردن کے مشرقی کنارے میں بسنے والے بدو قبیلے بنو حسن کی خلیلہ شاخ سے تھا۔[8] ان کے آبا و اجداد 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد اپنی زمینیں چھوڑ کر الزرقا میں پناہ گزین ہوئے۔[9][10] الزرقاوی کی وضع کردہ شدت پسند آئیڈیالوجی کو "زرقاویت" کہا جاتا ہے، جو وہابی جہادی آئیڈیالوجی کی ایک سخت گیر تشریح پر مبنی ہے اور غیر ریاستی مسلح جدوجہد کو فروغ دیتی ہے۔ زرقاویت نے عراق اور شام سمیت دیگر علاقوں میں شدت پسندی کو ہوا دی اور داعش جیسی تنظیموں پر گہرا اثر ڈالا۔[11]

زرقاویت

[ترمیم]

زرقاویت، ابو مصعب الزرقاوی کی وضع کردہ ایک سخت گیر اور شدت پسند جہادی آئیڈیالوجی ہے، جو بنیادی طور پر وہابی جہادی آئیڈیالوجی کی تشریحات سے متاثر ہے۔ زرقاویت، پرائیویٹ جہاد کا ایک نمایاں مظہر ہے، جس میں غیر ریاستی مسلح جدوجہد کو جائز اور لازمی قرار دیا گیا ہے، چاہے ریاستی سطح پر اس کی منظوری نہ بھی ہو۔[12]

زرقاویت کا بنیادی محور غیر مسلم طاقتوں اور بعض مسلم گروہوں، خاص طور پر اہل تشیع کے خلاف مسلح کارروائیوں پر مبنی ہے۔ ابو مصعب الزرقاوی نے اہل تشیع کے خلاف مسلح جدوجہد کو جائز قرار دیا، جس سے القاعدہ کی پالیسیوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ زرقاوی کے نزدیک، اہل تشیع نے امریکہ اور افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں غیر مسلم طاقتوں کا ساتھ دیا، اس لیے ان پر حملے جائز ہیں۔[13]

زرقاویت نے نہ صرف عراق بلکہ شام اور دیگر مسلم ممالک میں بھی جہادی گروپوں کو اپنی شدت پسند حکمت عملی سے متاثر کیا، اور اس کے اثرات آج بھی مختلف جہادی تنظیموں میں نظر آتے ہیں، جیسے کہ داعش۔[14] زرقاویت کا مقصد عراق میں ایک سنی خلافت کا قیام اور مسجد اقصیٰ کی واپسی کے لیے مزاحمت کرنا تھا، اور اس کے لیے انہوں نے سخت گیر جہادی اصولوں کو بنیاد بنایا۔[15]

ابتدائی زندگی

[ترمیم]

الزرقاوی نے ایک غریب ماحول میں آنکھ کھولی، جہاں غربت اور ناانصافی عام تھی۔[16] وہ چار بھائیوں اور چھ بہنوں میں شامل تھے۔[17] [18]1984ء میں ان کے والد احمد نزال کی وفات کے بعد انہوں نے تعلیم ترک کر دی اور نوکری شروع کر دی۔ 1988ء میں انہوں نے فلسطینی عالم عبد اللہ عزام اور پروفیسر سیاف کی تقاریر سنیں، جنہوں نے نوجوانوں کو افغان جہاد میں شمولیت کی دعوت دی۔[19] اسی وقت انہوں نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔[20][21]

جہاد افغانستان

[ترمیم]

1989ء کے موسم بہار میں، ابو مصعب الزرقاوی پشاور پہنچے، جہاں ان کا جہادی نام "ابو محمد الغریب" رکھا گیا۔ اس وقت عبد اللہ عزام، جو وہابی جہادی آئیڈیالوجی کے اہم مبلغ تھے، نے انہیں میران شاہ کے راستے خوست کے پہاڑوں میں بھیج دیا، جہاں انہوں نے عسکری تربیت حاصل کی۔[22][23]

عسکری تربیت

[ترمیم]

1991ء میں، الزرقاوی نے جلال الدین حقانی کے ساتھ مل کر خوست کی فوجی چھاؤنی سے افغان کمیونسٹ فوج کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔[24] یہ وہ وقت تھا جب امریکا اور اقوام متحدہ افغان مجاہدین کو کابل کی کمیونسٹ حکومت کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جب کہ افغان گروپوں میں اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔[25]

حقانی کے ساتھ اتحاد

[ترمیم]

پاکستانی حکومت عرب مجاہدین کی واپسی کے لیے بھی سرگرم تھی۔[26] اسی دور میں پشاور میں ان کی ملاقات ایک فلسطینی عالم ابو محمد المقدسی سے ہوئی، جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور عرب حکومتوں کے دوستانہ تعلقات کے سخت مخالف تھے۔ المقدسی کا ماننا تھا کہ امریکا کے احکامات بجا لانے والی عرب حکومتوں کے خلاف مسلح بغاوت کی ضرورت ہے، جس کی الزرقاوی نے حمایت کی۔[27] تاہم، القاعدہ کا موقف اس وقت یہ تھا کہ پہلے اسرائیل اور امریکا کے خلاف مزاحمت کی جائے، بجائے اس کے کہ عرب حکومتوں کے خلاف بغاوت کی جائے۔[28]

اردن واپسی اور التوحید تنظیم کا قیام

[ترمیم]

جب القاعدہ کی قیادت سوڈان منتقل ہو گئی، تو 1993ء میں ابو مصعب الزرقاوی اور ان کے نئے رہنما ابو محمد المقدصی واپس اردن چلے گئے۔[29] وہاں انہوں نے "التوحید" کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد اردنی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنا تھا۔ تنظیم نے ہتھیار جمع کرنا شروع کیے تاکہ حکومت کے خلاف عسکری کارروائی کی جا سکے۔[30]

اوسلو معاہدہ کی مخالفت اور گرفتاری

[ترمیم]

13 ستمبر 1993ء کو اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان "اوسلو معاہدہ" ہوا، جسے ابو مصعب الزرقاوی نے سختی سے مسترد کیا اور اس کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے۔ 29 مارچ 1994ء کو اردنی حکومت نے ان کی مسلح سرگرمیوں اور امن معاہدے کی مخالفت کی بنا پر انہیں گرفتار کر لیا۔[31]

السوقہ جیل میں سختیاں اور شدت پسندی میں اضافہ

[ترمیم]

1995ء میں ابو مصعب الزرقاوی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور انہیں عمان سے 85 کلومیٹر جنوب میں واقع السوقہ جیل بھیج دیا گیا، جو ایک ریگستانی علاقے میں واقع تھی۔[32] جیل میں ابو مصعب الزرقاوی کو انتہائی ظالمانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑا، جس میں ان کے پاؤں کے ناخن نوچنا، جسم پر زخم لگا کر نمک چھڑکنا، اور طویل قید تنہائی شامل تھی۔ السوقہ جیل میں چھ ہزار سے زائد قیدی موجود تھے، جن میں سے اکثر نے عرب-اسرائیل امن معاہدے کی مخالفت کی تھی۔[33]

فواد حسین سے ملاقات اور نظریاتی پختگی

[ترمیم]

السوقہ جیل میں اردنی صحافی فواد حسین بھی قید تھے، جو عرب-اسرائیل امن معاہدے پر تنقید کرنے کی وجہ سے قید تھے۔[34] جیل میں ان کی ملاقات ابو مصعب الزرقاوی سے ہوئی، جنہوں نے ان کے نظریات اور شدت پسندی کو قریب سے جانا۔ فواد حسین کے مطابق، جیل میں ہونے والے ظلم و ستم نے ابو مصعب الزرقاوی کو مزید سخت گیر بنا دیا۔[35] اس دوران، ابو مصعب الزرقاوی نے اپنے ساتھی فقیہہ الشاوش کی مدد سے قرآن مجید حفظ کیا اور عزم ظاہر کیا کہ "ہمیں اپنی قوم کی تقدیر اپنے خون سے لکھنی ہے"۔[36]

رہائی اور دوبارہ جہادی سرگرمیاں

[ترمیم]

1999ء میں اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی وفات کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ دوم نے اقتدار سنبھالا، اور عام معافی کے نتیجے میں ابو مصعب الزرقاوی کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔[37][38] رہائی کے فوراً بعد الزرقاوی پشاور چلے آئے، لیکن ویزا کی میعاد ختم ہونے پر انہیں پشاور جیل جانا پڑا۔ کچھ ساتھیوں کی مدد سے ان کی رہائی ممکن ہوئی، جس کے بعد انہوں نے دوبارہ افغانستان کا رخ کیا اور وہاں جلال الدین حقانی کی مدد سے ہرات میں ایک عسکری تربیت کیمپ قائم کرنے کی اجازت حاصل کی۔[39][40]

القاعدہ سے روابط اور افغانستان میں سرگرمیاں

[ترمیم]

اسی دوران الزرقاوی کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات مضبوط ہونے لگے، لیکن وہ تنظیم میں باقاعدہ شمولیت سے گریزاں تھے، کیونکہ ان کا نظریہ تھا کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کی ہے، اسی طرح عرب مجاہدین کو بھی اپنے اپنے ممالک میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔[41][42]

دسمبر 2001ء میں جب امریکی فوج افغانستان میں داخل ہو چکی تھی، الزرقاوی قندھار چلے گئے، جہاں اسامہ بن لادن سے ملاقات کے بعد تورا بورا منتقل ہو گئے۔ وہاں سے انہوں نے فرار ہو کر خوست اور پھر شمالی وزیرستان کا رخ کیا۔ بعد ازاں، کوئٹہ کے راستے ایران داخل ہوئے اور گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی مدد سے 2003ء میں عراق پہنچے۔[43][44][45]

عراق میں القاعدہ کا قیام اور اہل تشیع پر حملے

[ترمیم]

2004ء میں القاعدہ کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے بعد، الزرقاوی نے اہل تشیع پر حملے بند کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد اسامہ بن لادن نے انہیں عراق میں القاعدہ کا امیر مقرر کیا۔[46][47]

زرقاوی کو عراق میں مجاہدین کے مختلف گروپوں کو متحد کرنے، افغانستان، شام، اردن، کویت، مصر، سعودی عرب، لبنان، اور ترکی کے نوجوانوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے، اور اسرائیل کے خلاف براہ راست تصادم کی تیاری کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔[48][49]

نور الدین زنگی کی تحریک اور الزرقاوی کی فکر

[ترمیم]

2003ء میں، عراق میں امریکی قبضے کے دوران، ابو مصعب الزرقاوی کی شدت پسند آئیڈیالوجی واضح ہوئی۔ ان کے لیے نور الدین زنگی ایک آئیڈیل تھے، جنہوں نے 1148ء میں موصل کو اپنا مرکز بنا کر 1169ء تک شام اور مصر پر حکومت کی، اور بعد میں صلاح الدین ایوبی نے ان کی وفات کے بعد یروشلم کو فتح کیا۔[50][51]

الزرقاوی کو یقین تھا کہ کوئی بھی امن معاہدہ، جیسے کہ اوسلو معاہدہ، ان کے قبیلے بنو حسن کو ان کی کھوئی ہوئی زمین واپس نہیں دلوا سکتا، اس لیے انہوں نے نور الدین زنگی کی طرح دجلہ و فرات کی سرزمین میں تحریک مزاحمت کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ یروشلم پر حملہ اور فتح کسی اور نسل کا کام ہو گا، لیکن وہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے، جب تک مسجد اقصیٰ واپس نہ مل جائے۔[52][53]

وفات

[ترمیم]

7 جون 2006ء کو ابو مصعب الزرقاوی عراق کے علاقے ہبیب میں ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے۔[54][55] ان کی موت کے بعد بھی ان کے نظریات پر مبنی تحریک، جسے "زرقاویت" کہا جاتا ہے، عراق، شام، اور دیگر مسلم ممالک میں شدت پسند تنظیموں کی بنیاد رہی۔[56][57]

بیرونی روابط

[ترمیم]
  1. http://www.cnn.com/2006/WORLD/meast/06/08/iraq.al.zarqawi/index.html
  2. عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Abu-Musab-al-Zarqawi — بنام: Abu Musab al-Zarqawi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/14542584 — بنام: Abu Musab Al-Zarqawi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000025586 — بنام: Abu Mussab al- Sarkawi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. مؤسسة الفرقان - من خفايا التاريخ - ميسرة الغريب
  6. Fawaz A. Gerges (2005)۔ The Far Enemy: Why Jihad Went Global۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 120–122۔ ISBN 9780521791408 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  7. "Zarqawi's Role in Afghan Jihad and its Legacy"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  8. "Who was Abu Musab al-Zarqawi?"۔ The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  9. Gilles Kepel (2002)۔ Jihad: The Trail of Political Islam۔ I.B.Tauris۔ صفحہ: 175–178۔ ISBN 9781860646848 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  10. Colin Clarke (2016)۔ Al-Qaeda in Iraq: From Zarqawi to ISIS۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 157–160۔ ISBN 9780199355672 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  11. "Zarqawi's Legacy: How His Ideology Continues to Influence Jihadist Movements"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  12. Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ صفحہ: 125–128۔ ISBN 9781590512463 
  13. Paul Cruickshank (2006)۔ "The Influence of Zarqawi on Global Jihadist Movements"۔ Studies in Conflict & Terrorism۔ 29 (4): 202–205 
  14. Colin Clarke (2016)۔ Al-Qaeda in Iraq: From Zarqawi to ISIS۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 157–160۔ ISBN 9780199355672 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  15. "Zarqawi's Legacy: How His Ideology Continues to Influence Jihadist Movements"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  16. Brian Fishman (2006)۔ "The Influence of Abu Musab al-Zarqawi on Modern Jihadist Movements"۔ The Washington Quarterly۔ 29 (4): 19–32 
  17. Rohan Gunaratna (2002)۔ Inside Al-Qaeda: Global Network of Terror۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 98–100۔ ISBN 9780231126924 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  18. Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ صفحہ: 102–104۔ ISBN 9781590512463 
  19. Fawaz A. Gerges (2011)۔ The Rise and Fall of Al-Qaeda۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 45–46۔ ISBN 9780199976881 
  20. Michael Weiss (2016)۔ "The Evolution of Jihad: From Zarqawi to ISIS"۔ Middle East Journal۔ 70 (2): 243–245 
  21. Fawaz A. Gerges (2011)۔ The Rise and Fall of Al-Qaeda۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 85–88۔ ISBN 9780199976881 
  22. Fawaz A. Gerges (2005)۔ The Far Enemy: Why Jihad Went Global۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 120–122۔ ISBN 9780521791408 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  23. "Abu Musab al-Zarqawi and the Rise of Jihad in Jordan"۔ Carnegie Endowment for International Peace۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  24. Michael Weiss (2007)۔ The Mastermind of Terror: How Zarqawi Changed Al-Qaeda۔ Middle East Journal۔ صفحہ: 208–210 
  25. "Zarqawi's Role in Afghan Jihad and its Legacy"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  26. Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ صفحہ: 125–128۔ ISBN 9781590512463 
  27. Gilles Kepel (2002)۔ Jihad: The Trail of Political Islam۔ I.B.Tauris۔ صفحہ: 175–178۔ ISBN 9781860646848 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  28. Brian Fishman (2006)۔ "The Influence of Abu Musab al-Zarqawi on Modern Jihadist Movements"۔ The Washington Quarterly۔ 29 (4): 19–32 
  29. Paul Cruickshank (2006)۔ "The Journey of Zarqawi: From Afghanistan to Iraq"۔ Studies in Conflict & Terrorism۔ 29 (4): 202–205 
  30. Fawaz A. Gerges (2011)۔ The Rise and Fall of Al-Qaeda۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 85–88۔ ISBN 9780199976881 
  31. "Abu Musab al-Zarqawi and the Rise of Jihad in Jordan"۔ Carnegie Endowment for International Peace۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  32. Michael Weiss (2016)۔ "The Evolution of Jihad: From Zarqawi to ISIS"۔ Middle East Journal۔ 70 (2): 243–245 
  33. Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ صفحہ: 102–104۔ ISBN 9781590512463 
  34. "Zarqawi's Legacy: How His Ideology Continues to Influence Jihadist Movements"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  35. "Zarqawi's Historical Inspirations: The Legacy of Nur al-Din Zangi"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  36. Laurent Murawiec (2006)۔ The Mind of a Terrorist: The Strange Case of Abu Musab al-Zarqawi۔ Rand Corporation۔ صفحہ: 45–47۔ ISBN 9780833039007 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  37. Peter Bergen (2012)۔ The Rise of Global Jihad: A History of Al-Qaeda۔ Free Press۔ صفحہ: 135–137۔ ISBN 9781451665727 
  38. Thomas Hegghammer (2010)۔ "Zarqawi's Jordanian Connections and His Return"۔ Journal of Middle Eastern Studies۔ 42 (2): 190–192 
  39. "Zarqawi's Activities in Afghanistan: Training Camps and Recruitment"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  40. Rohan Gunaratna (2002)۔ Inside Al-Qaeda: Global Network of Terror۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 98–100۔ ISBN 9780231126924 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  41. Fawaz A. Gerges (2005)۔ The Far Enemy: Why Jihad Went Global۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 175–178۔ ISBN 9780521791408 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  42. "Why Zarqawi Rejected Al-Qaeda's Global Jihad Strategy"۔ History Today۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  43. Paul Cruickshank (2006)۔ "The Journey of Zarqawi: From Afghanistan to Iraq"۔ Studies in Conflict & Terrorism۔ 29 (4): 202–205 
  44. "Zarqawi's Path: From Afghan Jihad to Iraqi Insurgency"۔ Carnegie Endowment for International Peace۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  45. Jean-Charles Brisard (2005)۔ Zarqawi: The New Face of Al-Qaeda۔ Other Press۔ صفحہ: 125–128۔ ISBN 9781590512463 
  46. Michael Weiss (2007)۔ The Mastermind of Terror: How Zarqawi Changed Al-Qaeda۔ Middle East Journal۔ صفحہ: 208–210 
  47. Jessica Stern (2008)۔ "The Evolution of Al-Qaeda in Iraq: From Zarqawi to ISIS"۔ Journal of Terrorism Research۔ 32 (3): 215–218 
  48. "How Zarqawi United Iraq's Insurgents"۔ Al Jazeera۔ May 10, 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  49. Colin Clarke (2016)۔ Al-Qaeda in Iraq: From Zarqawi to ISIS۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 157–160۔ ISBN 9780199355672 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  50. "Zarqawi's Historical Inspirations: The Legacy of Nur al-Din Zangi"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  51. David Cook (2010)۔ Islamic Warriors: From Zangi to Zarqawi۔ Routledge۔ صفحہ: 65–68۔ ISBN 9781134008307 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  52. Paul Cruickshank (2017)۔ "Zarqawi's Vision for the Middle East: The Return of the Islamic State"۔ Middle East Journal۔ 71 (2): 192–195 
  53. "Zarqawi's Dream: Reclaiming Al-Aqsa and the Role of Resistance"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  54. "Zarqawi killed in U.S. airstrike in Iraq"۔ BBC News۔ June 7, 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  55. Scott MacDonald (2007)۔ The Death of Zarqawi: End of an Era۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 256–259۔ ISBN 9780231152237 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  56. "Zarqawi's Legacy: How His Ideology Continues to Influence Jihadist Movements"۔ Combating Terrorism Center at West Point۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  57. Jessica Stern (2009)۔ The Legacy of Zarqawi: Al-Qaeda in Iraq and Beyond۔ Harvard University Press۔ صفحہ: 310–315۔ ISBN 9780674035143 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت)